دو مختلف ارادے تیور دکھا چکے ہیں

ہم آہ بھر چکے ہیں وہ مسکرا چکے ہیں
دو مختلف ارادے تیور دکھا چکے ہیں

آئی داستان سرا اب قصے کو ختم کر دے
بھٹکے ہوئے مسافر منزل پہ آ چکے ہیں

اب کیا الجھ سکھے گا ہم سے غم زمانہ
ہم تیرے گیسوئوں کے ہلکی میں آ چکے ہیں

آئی سوریش تلاطم ، اب کس کو ڈھونڈتی ہے
مدت ہوئی سفینے ساحل پہ آ چکے ہیں

اب دل کی خلوتوں میں تم آکے کیا کروگے
ہم آرزو کی شمعائیں کب سے بُجھا چکے ہیں . . . !

Posted on Aug 11, 2012