قربت بھی نہیں دل سے اُتَر بھی نہیں جاتا

قربت بھی نہیں دل سے اُتَر بھی نہیں جاتا
وہ شخص کوئی فیصلہ کر بھی نہیں جاتا

دل کو تیری چاہت پہ بھروسہ بھی بہت ہے
اور تجھ سے بچھڑ جانے کا ڈر بھی نہیں جاتا

آنکھیں ہیں کے خالی نہیں رہتی ہیں لہو سے
اور زخم جدائی ہے کے بھر بھی نہیں جاتا

وہ راحت جان ہے مگر اس در بدری میں
ایسا ہے کے اب دھیان اُدھر بھی نہیں جاتا

ہم دہری اذیت کے گرفتار مسافر
پاؤں بھی ہیں شل شوق سفر بھی نہیں جاتا

پاگل ہوئے جاتے ہو فراز اس سے ملے کیا
اتنی سی خوشی سے کوئی مر بھی نہیں جاتا . . . . !

Posted on Aug 02, 2012