سلوک آشنا کا اس لیے شکوہ نہیں کرتا
کے میں بھی تو کسی کی بات کی پروا نہیں کرتا
بہت ہوشیار ہوں اپنی لڑائی آپ لڑتا ہوں
میں دل کی بات کو دیوار پر لکھا نہیں کرتا
اگر پر جئی عادت آپ اپنے ساتھ رہنے کی
یہ ساتھ ایسا ہے کے ( کے ) ای انسان کو تنہا نہیں کرتا
زمین پیروں سے کینی بار ہی دن میں نکلتی ہے
میں ایسے حادثوں پر دل مگر چھوٹا نہیں کرتا
تیرا اصرار سر آنکھوں پر تجھ کو بھول جانے کی !
میں کوشش کر کے دیکھوں گا مگر وعدہ نہیں کرتا
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ