اس حویلی میں تو ا?ج جالے ہیں

آستینوں میں ناگ پالے ہیں ،
لوگ بے موت مرنے والے ہیں ،

رونقیں جس میں سر با سجدہ تھی ،
اس حویلی میں تو آج جالے ہیں ،

زخم بخشے ہیں اسکو پھولوں نے ،
جس نے پتھر نچوڑ ڈالے ہیں ،

ہر پرندے کی روح لرزاں ہیں ،
ایسے پھندے سنہرے ڈالے ہیں ،

شیش محلوں کی آج خیر نہیں ،
وقت نے سنگ وہ اچھالے ہیں ،

سچ کو جھٹلا دیا تھا جس نے ،
آج اسکی زباں میں چھالے ہیں ،

انکو کوئی سمجھ نہیں سکتا ،
ان کے انداز ہی نرالے ہیں ،

جو بھی قاتل ہمارے ہیں شعیب ،
پھول سے چہرے بھولے بھالے ہیں ،

Posted on Feb 16, 2011