اسکی راہ تکتا ہوں

اسکی راہ تکتا ہوں

ستاروں سے بھرے اس آسمان کی وسعتوں میں
مجھے اپنا ستارا ڈھونڈنا ہے
فلک پر کہکشاں در کہکشاں ایک بیکرانی ہے
نا اسکا نام ہے معلوم
نا کوئی نشانی ہے
بس اتنا یاد ہے مجھ کو
اَزَل کی صبح جب سارے ستارے
الوداعی گفتگو کرتے ہوئے رستوں پے چل نکلے تھے
تو اسکی آنکھ میں ایک اور تارا جھلملایا تھا
اسی تارے کی صورت کا
میری بھیگی ہوئی آنکھوں میں بھی ایک خواب رہتا ہے
میں اپنے آنسوں میں اپنے خوابوں کو سجاتا ہوں
اور اسکی راہ تکتا ہوں
سنا ہے گم شدہ چیزیں جہاں پر کھوئی جاتی ہیں ! !
وہیں پہ مل بھی جاتی ہیں ! ! !

Posted on Feb 16, 2011