یادوں سے رشتہ کل بھی تھا

یادوں سے رشتہ کل بھی تھا ، یادوں سے رشتہ آج بھی ہے
دل کل بھی اپنا دکھتا تھا ، دل افسردہ سا آج بھی ہے

تم دور ہوئے مجبوری میں ، ہم ٹوٹ گئے اس دوری میں
کبھی وقت ملے تو لوٹ آنا ، یہ دل کا در وا آج بھی ہے

تم خوش رہو آباد رہو ، دل اپنا تو برباد ہوا
غم دل کا سہارا کل بھی تھا ، اور غم کا مارا آج بھی ہے

یہ اشک نہیں ہیں آنکھوں میں ، یہ تارے جھلمل کرتے ہیں
ان آنکھوں میں جو کل تک تھا ، وہی چاند سا چہرہ آج بھی ہے

اب شکوہ کسی سے کیا کرنا ، تقدیر میں جو لکھا تھا ملا
غم کل بھی میرا سرمایہ تھا ، غم میرا ورثہ آج بھی ہے . . . !

Posted on May 02, 2012