اپنے ماضی کے تصور

اپنے ماضی کے تصور سے حراساں ہوں میں
اپنے گزرے ہوئے ایام سے نفرت ہے مجھے

اپنی بے کار تمناؤں پہ شرمندہ ہوں
اپنی بے سود امیدوں پہ ندامت ہے مجھے

میرے ماضی کو اندھیروں میں دبا رہنے دو
میرا ماضی مری ذلت کے سوا کچھ بھی نہیں

میری امیدوں کا حاصل مری کاوش کا صلہ
اک بے نام اذیت کے سوا کچھ بھی نہیں

کتنی بے کار امیدوں کا سہارا لے کر
میں نے ایوان سجائے تھے کسی کی خاطر

کتنی بے ربط تمناؤں کے مبہم خاکے
اپنے خوابوں میں بسائے تھے کسی کی خاطر

مجھ سے اب میری محبت کے فسانے نہ کہو
مجھ کو کہنے دو کہ میں نے انہیں چاہا ہی نہیں

اور وہ مست نگاہیں جو مجھے بھول گئیں
میں نے ان مست نگاہوں کو سراہا ہی نہیں

Posted on Feb 11, 2014