اپنے ہی دست و پا مرے اپنے رقیب ہو گئے

اپنے ہی دست و پا مرے اپنے رقیب ہو گئے
تیرے بغیر پھیل کر بازو صلیب ہو گئے

کوئی ہنسا تو رو پڑے، رویا تو مسکرا دیئے
اب کے تیری جُدائی میں ہم تو عجیب ہو گئے

آج بھی دیکھ دیکھ کر وعدے کا دن گزر گیا
آج بھی پھیل پھیل کر سائے مہیب ہو گئے

لوحِ جبیں پہ جس طرح لکھی گئیں مسافتیں
اتنا چلے کہ راستے اپنا نصیب ہو گئے

شدّت غم کو دیکھ کر غم کو بھی رحم آ گیا
وہ جو کبھی رقیب تھے وہ بھی حبیب ہو گئے

اُس کی رفاقتوں سے ہم کتنے امیر تھے عدیم
وہ جو بچھڑ گیا تو ہم کتنے غریب تھے

Posted on May 19, 2011