لوگ ہلال شام سے بڑھ کر پل میں ماہ تمام ہوئے


لوگ ہلال شام سے بڑھ کر پل میں ماہ تمام ہوئے
ہم ہر برج میں گھٹتے گھٹتے صبح تلک گم نام ہوئے

ان لوگوں کی بات کرو جو عشق میں خوش انجام ہوئے
نجد میں قیس یہاں پر انشا خوار ہوئے ، نا کام ہوئے

کس کا چمکتا چہرہ لائیں ، کس سورج سے مانگیں دھوپ
گھور اندھیرا چھا جاتا ہے ، خلوت دل میں شام ہوئے

ایک سے ایک جنوں کا مارا اس بستی میں رہتا ہے
ایک ہمیں ہوشیار تھے یارو ، ایک ہمیں بے نام ہوئے

شوق کی آگ ، نفس کی گرمی ، گھٹتے گھٹتے سرد ہو نا ہو ؟
چاھ کی راہ دکھا کر تم تو وقف دریچہ و بام ہوئے

ان سے بہار و باغ کی باتیں کر کے جی کو دُکھانا کیا
جن کو ایک زمانہ گزرا کنج قفس میں رام ہوئے

انشا صاحب پھو پھٹتی ہے ، تارے ڈوبے ، صبح ہوئی
بات تمھاری مان کے ہم تو شب بھی بے آرام ہوئے

Posted on Nov 05, 2012