اس بیوفا کے پیار سے حاصل یہ ہوا ہے

اس بیوفا کے پیار سے حاصل یہ ہوا ہے

اس بیوفا کے پیار سے حاصل یہ ہوا ہے
دل غمزدہ ہے میرا ہونٹوں پے دعا ہے

اس بت کی پوجا سے مجھے حاصل یہ ہوا ہے
چند آنسوؤں کے قطروں سے یہ طوفان اٹھا ہے

یہ اشعار کی بارش ہوتی ہے جو اکثر
ٹوٹے ہوئے دل کی آہ و بکا ہے

تنہا ہوں میں کتنا یہ معلوم ہو کس کو
میلا سا میرے گرد یوں تو لگا ہے

’اللہ’ بچائے میرے دشمن کو بھی اس سے
یہ عشق بڑا ظالم ستم گر بڑا ہے

برسات کا پانی بھی نمکین ہو گیا ہے
آنْسُو ہماری آنکھ کا اس میں جو ملا ہے

غلطی ہی ہماری تھی جو چاہا تھا آپ کو
آب درد جو ملا ہے تو تم سے کیا گلہ ہے

کرتے رہینگے محبت اے یار تجھی سے
لب کو مگر سی لینگے انجام برا ہے

کر عشق خدا سے کے وہ بیوفا نہیں ہے
بندوں کے عشق میں تو ذلت ہے دغا ہے

دل نفیس کو یا رب دے حوصلہ
ٹوٹا ہے کچھ ایسے کے پیر پیر یہ ہوا ہے

ریٹن بائے

نفیس احمد خان نفیس

Posted on Feb 16, 2011