اپنے ہی شب و روز میں آباد رہا کر

اپنے ہی شب و روز میں آباد رہا کر
ہم لوگ برے لوگ ہیں ہم سے نا ملا کر

شاید کسی آواز کی خوشبو نظر آئے
آنکھیں ہیں تو خوابوں کی تمنا بھی کیا کر

باتوں کے لئے شکووں کے موسم ہی بہت ہیں
کچھ اور کسی سے نا کہا کر نا سنا کر

سونے دے انہیں رنگ جو سوئے ہیں بدن میں
آوارَہ ہواؤں کو نا محسوس کیا کر

تو سبھی بہاراں کا حسین خواب ہے پھر بھی
آہستہ ذرا اُس کی بوندوں پہ چلا کر . . . !

Posted on May 17, 2012