مدت ہوئی کا چہرہ یار نہیں دیکھا

مدت ہوئی کا چہرہ یار نہیں دیکھا
وہ آنکھیں نہیں دیکھی وہ رخصار نہیں دیکھا

فقط یا جان کر کے غریب ہوں ٹھکرا دیا مجھے
میری چاہتیں میری حسرتیں میرا پیار نہیں دیکھا

ذرا سی ٹِیس پہنچی تو مجھ سے روٹھ گیا
اسے کہو تم نے کبھی مجھے اشکبار نہیں دیکھا

نکال کے سینے سے دل جلا دیا تھا میں نے
کیا تم نے یہ تماشہ سر بازار نہیں دیکھا . . . . !

Posted on Jul 10, 2012