نہ تجھے قرار ہوتا نہ مجھے قرار ہوتا

نہ تجھے قرار ہوتا نہ مجھے قرار ہوتا

تجھے مجھ سے مجھ کو تجھ سے جو بہت ہی پیار ہوتا
نہ تجھے قرار ہوتا نہ مجھے قرار ہوتا
ترا ہر مرض الجھتا میری جان ناتواں سے
جو تجھے زکام ہوتا تو مجھے بخار ہوتا

تجھ کو یاد کرتا تجھے چھینکنا بھی پڑتا
مرے ساتھ بھی یقینا یہی بار بار ہوتا
کسی چوک میں لگاتے کوئی چوڑیاں کا کھوکھا
شہر میں بھی اپنا کوئی کاروبار ہوتا

غم و رنج عاشقانہ نہیں کیلکولیٹرانہ
اسے میں شمار کرتا تو نہ بے شمار ہوتا
وہاں زیر بَحْث آتے خد و خال و خوئے خوباں
غم عشق پر جو انور کوئی سمینار ہوتا

Posted on Feb 16, 2011