حسن و جمال کے بھی زمانے نہیں رہے

حسن و جمال کے بھی زمانے نہیں رہے
آنکھوں میں اسکے خواب سہانے نہیں رہے

ملنے کو آ ہی جاتا ہے ہر چند روز بعد
لگتا ہے اس کے پاس بہانے نہیں رہے

لرزش ہے ہاتھ میں تو میں تو نظر بھی ہے دھندلی
پہلے سے اب وہ دل کے نشانے نہیں رہے

اٹھتی نہیں ہیں شوق و تجسس کے با وجود
آنکھوں کے کتنے کام پرانے نہیں رہے

کمرے سے بھر گئے ہیں مسائل کی گرد سے
دل میں تیرے خیال کے خانے نہیں رہے . . . !

Posted on Apr 04, 2012