قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت شعیب علیہ السلام

اور جاہل خطباءآخری زمانے میں گرفتار ہوگئے تھے? اللہ تعالی? نے فرمایا:
”(یہ) کیا (عقل کی بات ہے کہ) تم لوگوں کو نیکی کرنے کو کہتے ہو اور خود کو فراموش کردیتے ہو،
حالانکہ کتاب (اللہ) بھی پڑھتے ہو? کیا تم سمجھتے نہیں؟“ (البقرة: 44/2)
اور نبی? نے فرمایا: ”(قیامت کے دن) ایک آدمی کو لاکر جہنم میں پھینکا جائے گا، اس کے پیٹ سے انتڑیاں باہر نکل آئیں گی? وہ ان کے ارد گرد (تکلیف کی شدت سے) چکر کاٹنا شروع کردے گا، جس طرح (چکی چلانے والا) گدھا چکی کے گرد گھومتا ہے? جہنمی اکٹھے ہوجائیں گے? وہ کہیں گے: فلاں صاحب! آپ کو کیا ہوا؟ کیا آپ ہمیں نیکی کا حکم نہیں دیا کرتے تھے اور برے کاموں سے منع نہیں کیا کرتے تھے؟ وہ کہے گا: ”ہاں! میں نیکی کی تلقین تو کرتا تھا، لیکن اس پر عمل نہیں کرتا تھا? برائی سے منع تو کرتا تھا، لیکن خود اس کا ارتکاب کرلیا کرتا تھا?“ صحیح البخاری‘ بدءالخلق‘ باب صفة النار و ا?نھا مخلوقة‘ حدیث: 3267 وصحیح مسلم‘ الزھد‘ باب عقوبة من یا?مر بالمعروف ولا یفعلہ....‘ حدیث: 2989 و مسند ا?حمد: 205/5
انبیاءعلیہم السلام کی مخالفت کرنے والے بدنصیب بدکاروں کی یہی کیفیت ہوتی ہے، لیکن اہل عقل علماءجو رب کا خوف رکھتے ہیں، ان کی کیفیت وہ ہوتی ہے جیسے اللہ کے نبی حضرت شعیب علیہ السلام نے فرمایا تھا:
”اور میں نہیں چاہتا کہ جس امر سے میں تمہیں منع کروں خود اُس کو کرنے لگوں، میں تو جہاں تک
مجھ سے ہوسکے (تمہارے معاملات کی) اصلاح چاہتا ہوں?“ (ھود: 88/11)
یعنی مجھے ہر حال میں اللہ ہی سے توفیق ملتی ہے اور میں تمام معاملات میں اسی پر اعتماد کرتا ہوں? میرے ہر کام کا انجام اسی کے ہاتھ میں ہے? یہ سارا کلام ”ترغیب“ پر مشتمل ہے? اس کے بعد آپ نے ”ترہیب“ کا پہلو اختیار کرتے ہوئے فرمایا:
”اور اے میری قوم! میری مخالفت تم سے کوئی ایسا کام نہ کرادے کہ جیسی مصیبت نوح کی قوم یا ہود
کی قوم یا صالح کی قوم پر واقع ہوئی تھی ویسی ہی مصیبت تم پر واقع ہو اور لوط کی قوم (کا زمانہ تو) تم
سے کچھ دور نہیں?“ (ھود: 89/11)
یعنی میری مخالفت اور میرے لائے ہوئے پیغام سے نفرت تمہیں اس طرف نہ لے جائے کہ اپنی گمراہی اور جہالت پر قائم رہو، جس کے نتیجے میں تم پر اللہ کا عذاب آسکتا ہے، جس طرح تم جیسے پہلے کافروں پر آیا تھا‘ یعنی جس طرح قوم نوح اور عاد و ثمود کے کافر اور حق کے مخالف اللہ کے عذابوں کی لپیٹ میں آگئے تھے? پھر فرمایا: ”اور لوط علیہ السلام کی قوم تم سے کچھ دور نہیں?“ یعنی وہ کوئی بہت پرانے دور کا واقعہ نہیں? بلکہ ان کے کفر و عناد کی وجہ سے آنے والا عذاب تمہیں معلوم ہے? ایک مطلب یہ ہے کہ ان کا علاقہ اور مسکن تم سے کچھ دور نہیں? ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ وہ لوگ عادات اور بداعمالیوں کے لحاظ سے تم سے کچھ دور اور زیادہ مختلف نہیں تھے? وہ بھی تمہاری طرح مسافروں کو لوٹنے اور پریشان کرنے والے اور طرح طرح کے مکر و فریب کے ذریعے سے اور طرح طرح کے حیلوں بہانوں سے لوگوں کا مال سرعام بھی

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت شعیب علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.