اسلامی دنیا 
29 اپریل 2011
وقت اشاعت: 10:0

فلسطین

پندرہ سو قبل مسیح میں آباد ہونے والی اس قدیم ریاست میں موجودہ جھگڑے کی ابتداءاُس وقت ہوئی کہ جب دنیا کے مختلف ممالک میں بسنے والے یہودیوں کے دل میں اپنی آزاد ریاست کے قیام کا خیال پیدا ہوا۔ 1897ء میں سوئٹزرلینڈ میں ہونے والی یہودیوں کی کانگرس نے اس سلسلے میں باقاعدہ تحریک کا آغاز کیا۔ چنانچہ روس سے (1880ء تا 1890ء) نکالے گئے یہودیوں کو وسائل کے بل بوتے پر فلسطین میں آباد ہونے کی ترغیب دی جانے لگی۔ اس سے پہلے 1875ء میں یہاں پٹیاح ٹیکوا میں یہودیوں کی پہلی بستی کی داغ بیل ڈالی جاچکی تھی۔ چنانچہ 1916ء تک فلسطین میں 80 ہزار کے قریب یہودی آباد ہوگئے جب برطانیہ اور اقوام متحدہ نے مسلمانوں کی جانب سے ہونے والے مطالبات پر کان نہ دھرے تو مجبوراً مئی 1921ء میں عربوں نے یہودی بستیوں کے خلاف پہلی آواز بلند کی اور فلسطین میں قومی جمہوری حکومت کے قیام پر زور دیا۔ جب کوئی شنوائی نہ ہوئی تو اگست 1929ء میں یہودی بستیوں کے خلاف باقاعدہ بغاوتیں شروع ہوگئیں۔ دوسری جانب طے شدہ منصوبے کے تحت یہودیوں نے دولت اور حکومت برطانیہ کے بل بوتے اپنے آپ کو مضبوط بنانے اور اپنی تعداد بڑھانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ چنانچہ 1931ء تک فلسطین میں پونے دو لاکھ کے قریب یہودی آباد ہوچکے تھے۔ دوسرے الفاظ میں اُن کی تعداد دس فیصد سے بڑھ کر آبادی کا 1/3 ہوچکی تھی۔

اب فلسطین میں باقاعدہ مظاہرے شروع ہوگئے جن میں یہودیوں کی یوں آباد کاری کے خلاف آواز بلند کی جانے لگی۔ 1936ء میں ملک گیر ہڑتال ہوئی۔ لوگوں نے حکومت کو ٹیکس دینے بند کردیئے۔ یہ سلسلہ 1939ء تک جاری رہا حتیٰ کہ دوسری عالمی جنگ کا آغاز ہوگیا۔ بعد ازاں فلسطین میں ملک گیر خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ لیکن برطانیہ اور یورپ میں یہودیوں کے لیے نرم گوشوں میں اضافہ ہوا کیونکہ وہ یہودیوں کو ہٹلر کا ستایا ہوا سمجھنے لگے۔ چنانچہ اُن کی ملی بھگت سے 14مئی 1948ء کو یہودیوں کی قومی کونسل نے تل ابیب میں ہونے والے اپنے اجلاس میں صیہونی ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلان کردیا۔ جسے چند گھنٹوں میں امریکہ اور دیگر یورپی ممالک نے تسلیم کرلیا۔

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
فلسطینالجزائر
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.