غزل ( بقا بلوچ )

غزل ( بقا بلوچ )

اب نہیں درد چھپانے کا قرینہ مجھ میں
کیا کروں بس گیا ایک شخص انوکھا مجھ میں

اس کی آنکھیں مجھے مشہور کیے رکھتی ہیں
وہ جو ایک شخص ہے مدت سے صف آرا مجھ میں

میرے چہرے پہ اگر قرب کے آثار نہیں
یہ نا سمجھو کہ نہیں کوئی تمنا مجھ میں

اپنی مٹی سے رہی ایسی رفاقت مجھ کو
پھیلتا جاتا ہے ایک ریت کا صحرا مجھ میں

ڈوب تو جائوں تیری مدھ بھری آنکھوں میں مگر
لڑکھڑانے کا نہیں حوصلہ اتنا مجھ میں

میاں کنارے پہ کھڑا ہوں تو کوئی بات نہیں
بہتا رہتا ہے تیری یاد کا دریا مجھ میں

جب سے ایک شخص نے دیکھا ہے محبت سے بقا
پھیلتا جاتا ہے ہر روز اجالا مجھ میں

Posted on Feb 16, 2011