سر شاخ گل

وہ سایہ دار شجر ،

جو مجھ سے دور بہت دور ہے مگر اس کی

لطیف چھاؤں

میرے وجود

سجل ، نرم چھاؤں کی طرح

میری شخصیت پر چھائی ہوئی ہے

وہ ماں کی بانہوں کی مانند مہربان شاخیں

جو ہر عذاب میں مجھ کو سمیٹ لیتی ہیں

وہ اک مشفاق دیرینہ کی دعا کی طرح

شریر جھونکوں سے نرم پتوں کی نرم گوشی

کلام کرنے کا لہجہ مجھے سکھاتی ہے

وہ دوستوں کی حسین مسکراہٹوں کی طرح

شفق آزار ، دھنک پرہن شگوفے جو

مجھے زمین سے محبت کا درس دیتے ہیں !

اداسیوں کی کیسی جان گداز ساعت میں

میں اس کے شاخ پے سر رکھ کے جب بھی روئی ہوں

تو میری پلکوں نے محسوس کر لیا فوراً

بہت ہی نرم سی اک پنکھڑی کا شیریں لمحہ !

( نمی تھی آنکھ میں لیکن میں مسکرائی ہوں ! )

کڑی ہے دھوپ

تو پھر برگ برگ ہے شبنم

تپا ہوں لہجے

تو پھر پھول پھول ہے ریشم

ہرے ہوں زخم

تو سب کونپلوں کا رس مرہم !

وہ اک خوشبو

جو میرے وجود کے اندر

صداقتوں کی طرح زینہ زینہ اتری ہے

کرن کرن میری سوچوں میں جگمگاتی ہے

( مجھے قبول ، کہ وجدان نہیں یہ چاند میرا

یہ روشنی مجھے ادراک دے رہی ہے مگر ! )


وہ اک جھونکا

جو اس شہر گل سے آیا تھا

اب اس کے ساتھ بہت دور جا چکی ہوں میں

میں اک ننھی سی بچی ہوں اور خاموشی سے

بس اس کی انگلیاں تھامے اور آنکھیں بند کیے

جہاں جہاں لیے جاتا ہے ، جا رہی ہوں میں !


وہ سایہ دار شجر

جو دن میں میرے لیے ماں کا نرم آنچل ہے

وہ رات میں میرے آنگن پہ ٹھہرنے والا

شفیق ، نرم زباں مہرباں بادل ہے


میرے دریچوں میں جب چاندنی نہیں آتی

جو بے چراغ کوئی شب اترنے لگتی ہے

تو میری آنکھیں کرن کے شجر کو سوچتی ہیں

دبیز پردے ، نگاہوں سے ہٹنے لگتے ہیں

ہزار چاند ، سر شاخ گل ابھرتے ہیں !

Posted on May 05, 2011