دل کی بات لبوں پر لاکر اب تک ہم دکھ سہتے ہیں

دل کی بات لبوں پر لاکر اب تک ہم دکھ سہتے ہیں
ہم نے سنا تھا اس بستی میں دل والے بھی رہتے ہیں
بٹ گیا ساون کا مہینہ موسم نے نظریں بدلی
لیکن ان پیاسی آنکھوں میں اب تک آنْسُو بہتے ہیں
ایک ہمیں آوارہ کہا نہ کوئی بڑا الزام نہیں
دنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں
جس کے خاطر شہر بھی چھوڑا جس کے لیے بدنام ہوئے
آج وہی ہم سے بیگانے بیگانے سے رہتے ہیں
وہ جو ابھی راہگزر سے چاک گریبان گزرا تھا
اس آوارہ دیوانے کو جالب جالب کہتے ہیں . . . !

Posted on Aug 07, 2012