سوچا

پھر چہرہ ہواؤں پہ بناتے ہوئے سوچا
آنکھوں میں کوئی خواب جگاتے ہوئے سوچا

دیکھو یہ بغاوت کی طرف پہلا قدم ہے
آندھی میں نیا دیپ جلاتے ہوئے سوچا

کس شوق سے لکھا ہے کسی نے اسے آ کر
صحرا! کوئی تحریر مٹاتے ہوئے سوچا؟

ٹکرانا عبث سر کو، پلٹ آنا ہے قسمت
ساحل کی طرف موج نے جاتے ہوئے سوچا

بن جائے تو ہم خوشیاں ذرا مانگ کے دیکھیں
پتھر کا خدا آج بناتے ہوئے سوچا

اب کس نے گرانے کے لیے آنا ہے اس کو
دیوار کوئی دل میں اٹھاتے ہوئے سوچا

ایسا نہ ہو قاتل کوئی گھر اس میں بنالے
دروازہ سا اک دل میں بناتے ہوئے سوچا

یہ کھیل نہیں خوب، سنبھل جاؤ ابھی سے
خوشبو کو ہواؤں سے چھپاتے ہوئے سوچا

Posted on Jan 22, 2014