قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت داؤد علیہ السلام

سلطنت کو مضبوط کردیا تھا اور اسے حکمت (نبوت) دی تھی اور بات کا فیصلہ کرنا (سکھایا تھا)“ حدیث نبی ہے: ” گواہ پیش کرنا مدعی کی ذمہ داری ہے اور انکار کرنے والے (مدعا علیہ) کے ذمے قسم کھانا ہے?“ حضرت مجاہد اور سدی رحمة اللہ علیہما فرماتے ہیں: بات کا فیصلہ کرنے سے مراد مقدمہ کو سمجھ کر صحیح فیصلہ کرنے کی توفیق ہے? تفسیر الطبری: 170'165/2 تفسیر سورة ص?‘ آیت: 21'20
ارشاد باری تعالی? ہے:
”بھلا تمہارے پاس اُن جھگڑنے والوں کی بھی خبر آئی ہے جب وہ دیوار پھاند کر عبادت خانے میں
داخل ہوئے? جس وقت وہ داود کے پاس آئے تو وہ اُن سے گھبرا گئے‘ سو انہوں نے کہا کہ خوف نہ
کیجیے‘ ہم دونوں کا ایک مقدمہ ہے کہ ہم میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے تو آپ ہم میں
انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیجیے اور بے انصافی نہ کیجیے گا اور ہم کو سیدھا رستہ دکھا دیجیے? (کیفیت
یہ ہے کہ) یہ میرا بھائی ہے? اس کے (ہاں) ننانوے دُنبیاں ہیں اور میرے (پاس ایک) دُنبی
ہے? وہ کہتا ہے کہ یہ بھی میرے حوالے کردے اور وہ گفتگو میں مجھ پر زبردستی کرتا ہے? انہوں نے
کہا کہ یہ جو تیری دنبی مانگتا ہے کہ اپنی دنبیوں میں ملائے‘ بیشک تجھ پر ظلم کرتا ہے اور اکثر شریک ایک
دوسرے پر زیادتی ہی کیا کرتے ہیں? ہاں جو ایمان لائے اور عمل نیک کرتا رہے اور ایسے لوگ
بہت کم ہیں? اور داود نے خیال کیا کہ (اس واقعے سے) ہم نے ان کو آزمایا ہے تو انہوں نے اپنے
پروردگار سے مغفرت مانگی اور جھک کر گر پڑے اور (اللہ کی طرف) رجوع کیا تو ہم نے ان کو بخش
دیااور بے شک ان کے لیے ہمارے ہاں قرب اور عمدہ مقام ہے?“ (ص?: 25-21/38)
مفسرین نے یہاں بہت سے قصے کہانیاں بیان کی ہیں جن میں سے اکثر اسرائیلی روایات ہیں اور کچھ یقینا جھوٹی ہیں‘ اس لیے ہم نے ان کا ذکر نہیں کیا? اللہ تعالی? نے فرمایا:
”اے داود! ہم نے تم کو زمین میں بادشاہ بنایا ہے‘ لہ?ذا لوگوں میں انصاف کے ساتھ فیصلے کیا کرو اور
(اپنی) خواہش کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہیں اللہ کے رستے سے بھٹکا دے گی? جو لوگ اللہ کے رستے
سے بھٹکتے ہیں‘ اُن کے لیے سخت عذاب (تیار) ہے کہ انہوں نے حساب کے دن کو بھلا دیا?“
(ص?: 26/38)
اس آیت میں داود علیہ السلام کو مخاطب کیا گیا ہے لیکن اصل مقصود تمام حکمرانوں اور افسروں کو حکم دینا ہے کہ وہ انصاف کریں? اللہ کی طرف سے نازل شدہ حق کی پیروی کریں? دوسری آراءاور دل کی خواہشات نہ مانیں? اس میں اس کے برعکس عمل کرنے والے بے انصاف حکمرانوں کے لیے تنبیہ ہے? حضرت داود علیہ السلام اپنے دور میں انصاف‘ کثرت عبادت اور تمام نیکیوں کی انجام دہی کا ایک لائق اتباع نمونہ تھے? رات اور دن کا کوئی حصہ ایسا نہیں گزرتا تھا جس میں ان کے گھر کا کوئی نہ کوئی فرد عبادت میں مشغول نہ ہو? جیسے اللہ تعالی? نے فرمایا:
”اے آل داود! اس کے شکر کے طور پرنیک عمل کرو? میرے بندوں میں سے شکر گزار بندے کم ہی
ہوتے ہیں?“ (سبا?: 13/34)

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت داؤد علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.