قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت داؤد علیہ السلام

تاریخ اسلامی پر نظر دوڑائیں تو ابتدائے اسلام میں قریش مکہ، غریب مسلمانوں پر ہر قسم کا ظلم و ستم ڈھاتے دکھائی دیتے ہیں? انہیں بیت اللہ اور مکہ مکرمہ کی سرزمین سے ہجرت پر مجبور کردیتے ہیں? لیکن چند ہی سالوں بعد ان کا سارا غلبہ و غرور انہی غریب مسلمانوں کے قدموں تلے ہوتا ہے اور وہ بخشش کی بھیک مانگتے دکھائی دیتے ہیں? (فاعتبر و ایا اولی الابصار)
? آدابِ قاضی: حضرت داود علیہ السلام کے قصے سے فیصلہ کرنے کے آداب اور قاضی کے آداب کا پتہ چلتا ہے? حضرت داود علیہ السلام نے اپنے اوقات کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہوا تھا? ایک دن عبادت و ریاضت کے لیے‘ ایک دن وعظ و نصیحت کے لیے، پھر ایک دن عوامی فیصلوں کے لیے اور ایک دن اپنے نفس اور اہل و عیال کے لیے? ایک ایسے دن جب کہ وہ ان کے نفس اور اہل خانہ کے لیے مختص تھا، دو فرشتے فرضی مقدمہ لے کر حاضر ہوئے? آپ نے صرف مدعی کی بات سن کر فیصلہ کر دیا اور مدعاعلیہ کی حجت نہ سنی? اللہ تعالی? نے آپ کے درجات بلند کرنے کے لیے آپ کو اس آزمائش میں ڈالا تھا? آپ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو فوراً بارگاہ الہ?ی میں جھک گئے اور توبہ و استغفار کیا? ارشاد باری تعالی? ہے:
”اور داود سمجھ گئے کہ ہم نے انہیں آزمایا ہے، پھر تو اپنے رب سے استغفار کرنے لگے اور عاجزی
کرتے ہوئے گر پڑے? اور (پوری طرح) رجوع کیا? پس ہم نے بھی ان کا وہ (قصور) معاف
فرما دیا، یقینا وہ ہمارے نزدیک بڑے مرتبے والے اور بہت اچھے ٹھکانے والے ہیں?“
(ص?: 25,24/38)
بعض مفسرین کا خیال یہ ہے کہ دو شخص حقیقی جھگڑا لے کر آئے تھے? اس واقعے سے آپ کے صبر و تحمل کا امتحان لیا گیا کیونکہ جس طرح اورجس وقت وہ آئے تھے اس سے انسانی طبیعت میں اشتعال اور غصے کا آنا فطری بات تھی? دیوار پھاند کر آنا، عبادت میں دخل اندازی کرنا اور طرز تکلم میں آپ کی شان و عظمت کا لحاظ نہ رکھنا، یہ سب امور غصہ دلانے کے لیے کافی تھے مگر آپ نے صبر کا مظاہرہ کیا‘ تاہم جو ہلکی سی طبعی ناگواری ہوئی تھی اس پر توبہ و استغفار کرکے اپنے رب کی طرف رجوع کیا?
کچھ مفسرین کا خیال یہ ہے کہ آپ کی آزمائش یہ تھی کہ آپ قاضی ہوتے ہوئے بھی جھگڑوں میں الجھے ہوئے مدعیوں اور مدعا علیہان سے چھپ کر بیٹھے تھے‘ حالانکہ قاضی کو ہمہ وقت فیصلہ کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے? لہ?ذا وہ دونوں مجبور ہو کر دیوار پھلانگ کر آپ کے پاس پہنچے?
رسول اکرم? نے قاضیوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
”کوئی قاضی دو افراد کے درمیان غصے کی حالت میں فیصلہ نہ کرے?“
صحیح البخاری‘ الا?حکام، باب ھل یقضی القاضی و ا?ویفتی وھو غضبان؟
حدیث: 7158
موجودہ دور کے چیف جسٹس اور جج حضرات جو لمبی لمبی گاڑیوں اور حفاظتی دستوں کے حصار میں آتے ہیں اور مضبوط و آہنی فصیلوں کے اندر بیٹھ کر حکمران وقت کی خواہش و منشا کو پورا کرنے کے لیے فیصلے کرتے ہیں انہیں اس فرمان نبوی? کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے? آپ? نے فرمایا:

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت داؤد علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.