قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت سلیمان علیہ السلام

حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات

ارشاد باری تعالی? ہے:
”پھر جب ہم نے ان کے لیے موت کا حکم صادر کردیا تو کسی چیز سے اُن کا مرنا معلوم نہ ہوا مگر گھن کے کیڑے سے جو اُن کا عصا کھاتا رہا? جب عصا گر پڑا تب جنوں کو معلوم ہوا (اور کہنے لگے) کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو ذلت کی تکلیف میں نہ رہتے?“ (سبا?: 14/34)
حضرت ابن عباس? فرماتے ہیں: حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد گھن کا کیڑا ایک سال تک ان کے عصا کو کھاتا رہا? تب آپ کا جسم مبارک گرا?
تفسیر الطبری: 92/12 تفسیر سورة سبا?‘ آیت: 14

نتائج و فوائد .... عبرتیں و حکمتیں

? نظام شوری? کی اہمیت و افادیت: حضرت سلیمان علیہ السلام کے قصے سے نظام شوری? کی ضرورت و اہمیت اور افادیت و فضیلت ثابت ہوتی ہے? حکام بالا کا اہل علم اور اہل دانش سے امور مملکت کے متعلق مشورہ ہمیشہ مملکت اور عوام کے لیے نفع مند ثابت ہوتا ہے کیونکہ فرد واحد کی رائے اور عقل و دانش سے اہل خرد کے مجموعے کی رائے اور عقل و دانش بہتر ہوتی ہے? لیکن اگر حکام مجلس شوری? کے مشورے سے احتراز کرتے ہوئے فیصلہ کریں تو اس کے نقصانات اور مفاسد کے شواہد سے تاریخ انسانی بھری پڑی ہے?
ملکہ بلقیس کو حضرت سلیمان علیہ السلام کا دھمکی آمیز خط موصول ہوا تو اس نے اکیلے ہی اس کے بارے میں فیصلہ نہیں کرلیا بلکہ اپنے امراءاور وزارءکو جمع کرکے ان سے مشورہ طلب کیا:
”اے میرے سردارو! تم میرے اس معاملے میں مجھے مشورہ دو، میں کسی امر کا قطعی فیصلہ جب تک تمہاری موجودگی اور رائے نہ ہو نہیں کیا کرتی?“ (النمل: 16/27)
اس طرح ملکہ نے ان سے مشورے کے بعد اپنے اور اپنے عوام کی بہتری اور فلاح والا فیصلہ کیا? اس سے یہ بھی درس ملتا ہے کہ سربراہ کے لیے ضروری نہیں کہ وہ شوری? ہی کی رائے کے مطابق فیصلہ کرے بلکہ مشورے کے بعد جو صورت اسے بہتر نظر آئے وہ اس کا فیصلہ کرسکتا ہے?
مشورہ اور رائے دہی کا یہ مفید نظام ہزاروں سال پر محیط ہر حکومت کے دستور و قانون کا اہم اور لازمی حصہ رہا ہے? البتہ مختلف ادوار میں اس کے مختلف انداز رہے ہیں? شوری? کی اس افادیت کے پیش نظر اللہ تعالی? نے اپنے نبی حضرت محمد رسول اللہ? کو بھی اس کا حکم دیا? ارشاد باری تعالی? ہے:
”اور کام کا مشورہ ان سے کیا کریں?“ (آل عمران: 159/3)
امام شوکانی? شوری? کے عمل کی تفصیل بیان کرتے ہوئے امام ابن خویز منداد سے نقل کرتے ہیں کہ حکمرانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ علمائے کرام سے ایسے امور میں مشورہ کریں جو انہیں معلوم نہ ہوں یا جن کے بارے میں انہیں اشکال ہو، فوجی سربراہوں سے جنگی امور، عوامی نمائندوں سے عوام کی فلاح و بہبود اور ماتحت وزراءورو?ساءسے ان کے علاقوں کے متعلق مشورہ کریں?“

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت سلیمان علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.