قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت یوسف علیہ السلام

الاحادیث الضعیفة، 272/2‘ حدیث: 880) علامہ منصور پوری? فرماتے ہیں: اس گواہ نے (جس کا ذکر آیت میں ہے) جانب داری سے کام لیا تھا کیونکہ اس قسم کے مقدمہ میں اصولی طور پر عورت کا معاینہ ہونا چاہیے تھا? تاکہ تشدد کا ثبوت تلاش کیا جائے لیکن اس نے صورت معاملہ کو بدل کر یوسف کے معاینہ کے لیے کہا? یہ دوسری بات ہے کہ اللہ نے اس کی تدبیر ناکام بنادی اور قصور پھر بھی عورت ہی کا ثابت ہوا? لہ?ذا خاوند کو یوسف علیہ السلام سے کہنا پڑا کہ اب اس بات کو جانے دو?
ایک قول یہ ہے کہ وہ اس کے خاوند قطفیر کا رشتہ دار تھا? ایک قول کے مطابق خود اس عورت کا رشتہ دار تھا‘ اس نے کہا: ”اگر اس کا کرتا آگے سے پھٹا ہوا ہو تو عورت سچی ہے اور یوسف جھوٹ بولنے والوں میں سے ہے?“ کیونکہ ایسا ہوسکتا ہے کہ یوسف نے اس سے چھیڑ چھاڑ کی ہو اور اس نے انہیں پیچھے ہٹانے کی کوشش کی ہو جس کے نتیجے میں کرتا آگے سے پھٹ گیا ہو? ”اور اگر اس کا کرتا پیچھے کی جانب سے پھاڑا گیا ہے تو عورت جھوٹی ہے اور یوسف سچا?“ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ اس سے بچنے کے لیے بھاگے ہوں اور اس نے پیچھا کرکے پکڑ لیا ہو جس کی وجہ سے کرتا پھٹ گیا ہو اور واقعتا ہوا بھی ایسے ہی تھا? خاوند نے جو دیکھا کہ یوسف کا کرتا پیٹھ کی جانب سے پھاڑا گیا ہے تو صاف کہہ دیا: ”یہ تم عورتوں کی چال بازی ہے بے شک تمہاری چال بازی بہت بڑی ہے?“ (یوسف: 37) یعنی یہ جو واقعہ پیش آیا ہے یہ تم عورتوں کی چال بازی ہے تونے خود ہی اسے ورغلانے کی کوشش کی اور خود ہی اس پر جھوٹا الزام لگا دیا?
پھر اس کے خاوند نے اس بات کو نظر انداز کردیا اور کہا: ”یوسف! اب بات کو جانے دو?“ یعنی کسی سے اس کا ذکر نہ کرنا کیونکہ ایسے معاملات کو چھپانا ہی مناسب اور بہتر ہوتا ہے اور عورت کو حکم دیا کہ اس سے جو گناہ سر زد ہوگیا ہے، اس پر استغفار کرے اور اپنے رب کے آگے توبہ کرے کیونکہ بندہ جب اللہ کے آگے توبہ کرتا ہے تو اللہ اس کی توبہ قبول فرما لیتا ہے?
مصر کے لوگ اگرچہ بتوں کی پوجا کرتے تھے لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ گناہوں کو معاف کرنے والا اور ان کی سزا دینے والا اکیلا اللہ ہی ہے? اِس میں اُس کا کوئی شریک نہیں? اس لیے اس کے خاوند نے اس سے یہ بات کہی اور اسے بعض لحاظ سے معذور سمجھا کیونکہ وہ ایسے خوش شکل انسان کی موجودگی میں اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکی تھی? لیکن یوسف علیہ السلام پاک دامن تھے? آپ نے اپنی عزت کو داغ دار ہونے سے محفوظ رکھا? چنانچہ اس نے کہا: ”(اے عورت!) تو اپنے گناہ سے توبہ کر، بے شک تو گناہ گاروں میں سے ہے?“

عزیز مصر کی بیوی کا شہر میں چرچا اور زنان مصر کی ضیافت

عزیز مصر کی بیوی کا عشق شہر میں مشہور ہوا تو دیگر رو?ساءکی عورتوں نے اسے لعن طعن کرنا شروع کردیا اور اسے عار دلائی کہ وہ اپنے غلام پر فریفتہ ہوگئی ہے? اللہ تعالی? نے ان کے معاملے کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
”اور شہر میں عورتیں گفتگو کرنے لگیں کہ عزیز مصر کی بیوی اپنے غلام کو اپنی طرف مائل کرنا چاہتی ہے
اور اس کی محبت اس کے دل میں گھر کر گئی ہے‘ ہمیں لگتا ہے کہ وہ صریح گمراہی میں ہے? جب اس
(عزیز کی بیوی) نے ان عورتوں کی (گفتگو جو حقیقت میں دیدار یوسف کے لیے ایک) چال

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت یوسف علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.