قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت یوسف علیہ السلام

ب کنویں میں ڈالے جانے اور آزاد ہونے کے باوجود غلام بنا کر بیچے جانے پر صبر و رضا کا کامل
اظہار?
پ مشفق اور رحمدل والدین کی جدائی اور ان کے سایہ? شفقت سے محرومی پر صبر?
ت عزیز مصر کی بیوی اور مصری عورتوں کے مکر و فریب اور شیطانی ترغیابت پر صبر?
ٹ بے گناہ اور مظلوم ہونے کے باوجود قید و بند کی صعوبتوں پر صبر?
ان تمام مراحل میں اپنے رب کی رحمت کے حصول کی امید پر صبر و رضا کے کامل اظہار پر اللہ تعالی? نے آپ کو عالی شان جزا عطا فرمائی? مصر کی بادشاہت اور زندگی کی ہر نعمت آپ کو عطا کردی گئی? ظلم کرنے والے بھائی نادم و شرمندہ آپ کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے اور طویل فراق کے بعد والدین کی محبت و مودت دوبارہ نصیب ہوگئی? اس پر آپ نے برملا اظہار شکر فرمایا:
”بات یہ ہے کہ جوبھی پرہیزگاری اور صبر کرے تو اللہ تعالی? کسی نیکوکار کا اجر ضائع نہیں کرتا?“
(یوسف: 90/12)
? عزت نفس اور شرف انسانی کی حفاظت: حضرت یوسف علیہ السلام کے قصے سے ہمیں عزت و ناموس کی حفاظت کا درس ملتا ہے? حضرت یوسف علیہ السلام کی عزت نفس کا یہ عالم تھا کہ برسوں مظلومانہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن جب بادشاہ نے خواب کی تعبیر کے لیے جیل سے آپ کو بلایا تو آپ نے رہائی کے اس حکم پر مسرت و شادمانی کا اظہار نہیں کیا بلکہ اس وقت تک جیل سے رہا ہونے سے انکار کردیا جب تک بادشاہ ان کے معاملے کی تحقیق و تفتیش کرا کے انہیں بے گناہ اور مظلوم قرار نہ دے دے‘ تاکہ آپ کی عزت و شرف اور عفت و عصمت کا اظہار ہو اور مصری عوتوں کے مکر و فریب کا عوام کو پتہ چل سکے? لہ?ذا جب بادشاہ نے تحقیق کرنے کے بعد آپ کی براءت اور بے گناہی کا اعلان کیا‘ نیز آپ کے علم و فضل اور پاکدامنی کی بدولت آپ کو اپنا وزیر خاص بنانے کا اعلان کیا تو آپ نہایت فرحت و سرور کے ساتھ، نہایت عزت و افتخار کے ساتھ جیل سے باہر تشریف لائے?
? حسد و بغض کا عبرت انگیز انجام: حسد و بغض ایسی اخلاقی بیماریاں ہیں جو حاسد اور بغض کرنے والے کے لیے نہایت مضر ہیں? اگرچہ بعض اوقات محسود کو بھی کچھ دنیوی نقصان ہوجاتا ہے مگر حاسد دنیا و آخرت کے خسارے سے دوچار ہو جاتا ہے? حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی حسد کی آگ میں بری طرح جل بھن گئے? والدین کی حضرت یوسف علیہ السلام سے فطری محبت ان کے دل میں کانٹا بن کر چبھ گئی? حسد کی اس بیماری نے انہیں یوسف علیہ السلام کو طرح طرح کی اذیتیں دینے پر آمادہ کیا? لیکن ان کی تمام تدابیر کارگر ہونے کے باوجود بالآخر وہ ذلت و رسوائی سے دوچار ہوئے اور یوسف علیہ السلام اگرچہ دکھی اور پریشان ہوئے مگر دنیوی اور اخروی کامیابی و کامرانی ان کا مقدر بنی? دکھ دینے والے حاسد بھائی بالآخر نادم و شرمندہ ہو کر آپ کے دربار میں اقرار جرم کرکے معافی کے طلب گار ہوتے ہیں:
”انہوں نے کہا اللہ کی قسم! اللہ تعالی? نے تجھے ہم پر برتری دی ہے اور یہ بھی بالکل سچ ہے کہ ہم خطا
کار تھے?“ (یوسف: 91/12)

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت یوسف علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.