قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت یوسف علیہ السلام

بات تو ظاہر ہو ہی گئی ہے (اصل یہ ہے کہ) میں نے اُس کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا تھا اور وہ بے
شک سچا ہے? (یوسف نے کہا کہ میں نے) یہ بات اس لیے (پوچھی ہے) کہ عزیز کو یقین ہو
جائے کہ میں نے اس کی پیٹھ پیچھے اس کی (امانت میں) خیانت نہیں کی اور اللہ خیانت کرنے
والوں کے مکر کو راہ نہیں دیتا? اور میں اپنے آپ کو پاک صاف نہیں کہتی کیونکہ نفس اَمّارہ (انسان کو)
برائی ہی سکھاتا رہتا ہے مگر یہ کہ میرا رب پروردگار رحم کرے? بے شک میرا پروردگار بخشنے والا
مہربان ہے?“ (یوسف: 53-50/12)
جب بادشاہ کو اچھی طرح معلوم ہوگیا کہ حضرت یوسف علیہ السلام علم وافر، عقل کامل، رائے صائب اور فہم ثاقب سے متصف ہیں تو اس نے حکم دیا کہ آپ کو اس کے دربار میں حاضر کیا جائے تاکہ آپ کو خاصّان دربار میں شامل کیا جائے? جب بادشاہ کا فرستادہ آپ کے پاس یہ پیغام لایا تو آپ نے چاہا کہ ہر ایک کومعلوم ہوجائے کہ آپ کو قید کیا جانا محض ظلم و عدوان تھا اور جو گناہ آپ کی طرف منسوب کیا گیا وہ صریح بہتان تھا? تب آپ نے اس سے فرمایا: ”اپنے مالک یعنی بادشاہ کے پاس واپس جا اور اس سے پوچھ کہ ان عورتوں کا حقیقی واقعہ کیا ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے؟ میرا رب ان کے حیلے سے واقف ہے?“
?رَبِّی±? ”میرا مالک، آقا“ سے ایک قول کے مطابق عزیز مراد ہے‘ یعنی اسے تو معلوم ہے کہ میں اس الزام سے بری ہوں‘ لہ?ذا بادشاہ سے کہو کہ وہ ان عورتوں سے بھی پوچھے کہ جب انہوں نے مجھے بہکانا چاہا تو میں نے ان کی بات ماننے سے کس قدر سختی سے انکار کیا تھا؟ جب عورتوں سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے اصل واقعہ کا اعتراف کرلیا اور یہ تسلیم کیا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کا کردار بے داغ تھا? انہوں نے کہا: ”معاذاللہ! ہم نے یوسف میں کوئی برائی نہیں پائی?“
اس وقت ”عزیز کی بیوی“ زلیخا بھی بول اُٹھی کہ اب تو سچی بات نتھر آئی‘ یعنی حق واضح ہوگیا ہے اور حق ہی کی پیروی ہونی چاہیے? اس نے کہا: ”میں نے ہی اسے اس کے جی سے ورغلایا تھا، اور وہ یقینا سچوں میں سے ہے?“ یعنی اس کی یہ بات بالکل سچ ہے کہ وہ بے گناہ ہے، اس نے مجھے گناہ کی دعوت نہیں دی بلکہ اسے جھوٹ اور بہتان کی بنیاد پر ظلم و عدوان سے قید کیا گیا تھا?
آیت مبارکہ ?ذ?لِکَ لِیَع±لَمَ اَنِّی± لَم± اَخُن±ہُ بِال±غَی±بِ وَاَنَّ اللّ?ہَ لَایَھ±دِی± کَی±دَال±خَآئِ نِی±نَ?
کو بعض علماءنے یوسف علیہ السلام کا کلام قرار دیا ہے? اس صورت میں یہ مطلب ہوگا کہ میں نے یہ تحقیق اس لیے کرائی ہے تاکہ عزیز کو معلوم ہوجائے گا کہ میں نے اس کی غیر موجودگی میں، اس کی خیانت نہیں کی تھی (یعنی زلیخا سے ناجائز تعلق قائم نہیں کیا تھا?) اور بعض دوسرے علماءاسے زلیخا کا کلام قرار دیتے ہیں? مطلب یہ ہے کہ میں نے اعتراف کرلیا ہے تاکہ میرے خاوند کو علم ہوجائے کہ میں نے اپنے خاوند کی عملاً خیانت نہیں کی تھی? صرف مائل کرنے کی کوشش ہوئی تھی، بدکاری کا عمل سر زد نہیں ہوا?
متاخرین علماءمیں سے بہت سے حضرات اس (دوسرے) قول کی تائید کرتے ہیں? البتہ ابن جریر? اور ابن ابی حاتم رحمة اللہ علیہ نے صرف پہلا قول نقل کیا ہے?

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت یوسف علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.