قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت نُوح علیہ السلام

ان آیات میں اللہ تعالی? نے یہ بیان فرمایا ہے کہ نوح علیہ السلام نے لوگوں کو ہر طرح تبلیغ کی? رات کو بھی اور دن کو بھی، تنہائی میں بھی اور علانیہ بھی، ترغیب کے ذریعے سے بھی اور ترہیب کے ذریعے سے بھی، لیکن کوئی طریقہ کارگر نہ ہوا بلکہ اکثر لوگ گمراہی، سرکشی اور بت پرستی پر اڑے رہے? ہر وقت آپ سے دشمنی کرتے رہے، آپ کو اور آپ پر ایمان لانے والوں کو برا بھلا کہتے رہے، انہیں شہید کردینے اور جلاوطن کردینے کی دھمکیاں دیتے رہے، ان کی بے عزتی کرتے اور زیادہ سے زیادہ تکلیفیں دیتے رہے?
? نبی کی خیر خواہی اور قوم کا عناد: نبی کی خیر خواہی اور نرمی و پیار کے باوجود آپ کی قوم کے جو بڑے سردار تھے، انہوں نے کہا: ”ہم آپ کو واضح گمراہی میں دیکھتے ہیں?“ (الا?عراف: 60/7) نوح علیہ السلام نے جواب دیا:
”اے قوم! مجھ میں کسی طرح کی گمراہی نہیں بلکہ میں پروردگار عالم کا پیغمبر ہوں?“ (الا?عراف: 61/7) یعنی تمہارا یہ خیال غلط ہے کہ میں گمراہ ہوں بلکہ میں رب العالمین کی طرف سے صحیح ہدایت پر قائم ہوں جو ہر چیز کو [کُن±] کہہ کر پیدا کر لیتا ہے?
حضرت نوح علیہ السلام نے مزید فرمایا: ”میں تمہیں اپنے پروردگار کے پیغام پہنچاتا ہوں اور تمہاری خیر خواہی کرتا ہوں اور مجھ کو اللہ کی طرف سے ایسی باتیں معلوم ہیں جن سے تم بے خبر ہو?“
(الا?عراف: 62/7)
رسول کی یہی شان ہوتی ہے کہ فصیح و بلیغ بھی ہو اور نصیحت کرنے والا خیرخواہ بھی ہو اور اسے اللہ (کی عظمت و شان اور صفات) کا علم بھی سب سے زیادہ ہوتا ہے? قوم کے سرداروں نے اعتراض کرتے ہوئے کہا:
”اور ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ تمہارے پیروکار وہی لوگ ہوئے ہیں جو ہم میں ادنی? درجے کے ہیں
اور وہ بھی رائے ظاہر سے (نہ غور وتفکر سے) اور ہم تم میں اپنے اوپر کسی طرح کی فضیلت نہیں دیکھتے
بلکہ تمہیں جھوٹا خیال کرتے ہیں?“ (ھود: 27/11)
انہیں اس بات پر حیرت تھی کہ ایک انسان اللہ کا رسول ہے? وہ نوح علیہ السلام کے متبعین کی توہین کرتے تھے اور انہیں کمتر سمجھتے تھے? ایک قول کے مطابق یہ افراد کمزور لوگ تھے، جیسے کہ ہرقل نے کہا تھا: ”کمزور ہی رسولوں کی پیروی کرنے والے ہوتے ہیں?“ صحیح البخاری‘ بدءالوحی‘ باب کیف کان بدءالوحی....‘ حدیث: 7 اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے لیے حق کی قبولیت کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی?
?بَادِیَ الرَّا±یِ? کا مطلب یہ ہے کہ (اے نوح) ان لوگوں نے آپ کے دعوے کو سوچے سمجھے بغیر قبول کرلیا ہے? حقیقت یہ ہے کہ جس چیز کو انہوں نے عیب قرار دیا ہے، وہی ان حضرات کا قابل تعریف وصف ہے? اللہ ان سے راضی ہوا? کیونکہ حق اتنا واضح ہوتا ہے کہ اسے سمجھنے کے لیے کسی غور و فکر اور تامل و تاخیر کی ضرورت ہی نہیں ہوتی‘ بلکہ جب وہ سامنے آجائے اسے مان لینا اور اس کی پیروی کرنا ضروری ہوتا ہے?

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت نُوح علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.