قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت نُوح علیہ السلام

اسلام نے رشتہ داروں کے عظیم حقوق مقرر کیے ہیں اور ان سے صلہ رحمی کی پرزور تاکید کی ہے لیکن ایمان کے بغیر یہ صلہ رحمی اور رشتہ داری کچھ فائدہ مندہ نہیں ہے? بلکہ ایمان باللہ اور نیک اعمال ہی کامیابی کی ضمانت ہیں? پیارے نبی ? نے اس حقیقت کو آشکارا کرنے کے لیے اپنے خاندان کو جمع کیا اور ایک ایک کو آواز دے کر فرمایا: ”اے مرہ بن کعب کی اولاد! اپنی جانوں کو آگ سے بچالو.... اے عبد شمس کے بیٹو! اپنے نفسوں کو جہنم سے آزاد کرالو.... اے بنی عبد مناف! خود کو عذاب الہ?ی سے محفوظ کرلو.... اے بنی ہاشم! اپنی جانوں کو جہنم کی آگ سے بچالو.... اے عبدالمطلب کی اولاد! خود کو آگ سے آزاد کرالو.... اے فاطمہ (بنت محمد?)! اپنی جان کو آگ سے بچالو? میں اللہ تعالی? سے تمہیں کچھ نفع نہ دے سکوں گا? سوائے اس کے کہ (دنیا میں) تمہاری رشتہ داری نبھاتا رہوں گا?“ (صحیح مسلم‘ الایمان، باب فی قولہ ?وا?نذر عشیر تک الا?قربین?، حدیث: 204)
لہ?ذا ایسے لوگوں کو اپنی اصلاح کرلینی چاہیے جو اس غلط فہمی یا خوش فہمی کا شکار ہیں کہ چونکہ ہم اہل بیت ہیں، ہم سید اور ہاشمی قبیلے سے ہیں، ہم اللہ کے احباءہیں، ہم عاشقان رسول ہیں، ہم قرآن و سنت کے ماننے والے ہیں، (حالانکہ یہ خالی دعوے ہوتے ہیں اور عملاً کچھ نہیں ہوتا? نہ ایما ن باللہ اور نہ اعمال صالحہ) اس لیے ہماری نجات یقینی ہے، حالانکہ نجات اور کامیابی کا دارو مدار ایمان اور نیک اعمال پر ہے?
? حق و باطل کی معرکہ آرائی: نوح علیہ السلام کے قصے سے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ہی انہوں نے ایک اللہ کی عبادت کی طرف لوگوں کو بلایا تو سارا معاشرہ ان کے خلاف ہوگیا? امراءو رؤسائے قوم ان کے دشمن بن گئے اور آپ کو طرح طرح کی اذیتیں اور تکالیف پہنچانا شروع کردیں? حق بات کو قبول کرنے والوں کو اذیتیں دینا اور ان پر عرصہ حیات تنگ کرنا امراءاور ان کے چیلوں کا محبوب مشغلہ بن گیا? اس طرح حق و باطل کی طویل معرکہ آرائی شروع ہوگئی?
لہ?ذا اس قصے میں یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ داعیانِ حق کو، میدانِ دعوت و ارشاد میں پیش آنے والی مشکلات کا سامنا خندہ پیشانی سے کرنا چاہیے‘ اس راہ میں ملنے والی تکالیف کو صبر و تحمل سے برداشت کرنا چاہیے اور اپنے مشن کو مکمل ولولے اور عزم سے جاری رکھنا چاہیے کیونکہ حق و باطل کی یہ معرکہ آرائی ازل سے شروع ہوئی اور ابد تک رہے گی? جب تک آدم علیہ السلام کے حق گو بیٹے زندہ ہیں، ابلیس کے کارندوں سے یہ معرکہ جاری رہے گا? اس لیے دعوت و توحید کا کارواں رکنا نہیں چاہیے، تھمنا نہیں چاہیے بلکہ اس کارواں کو اپنے رہبر و رہنما جد انبیاءنوح علیہ السلام کے اسوہ? مبارک سے ہمیشہ رہنمائی لیتے رہنا چاہیے جو عظیم حوصلے، صبر و تحمل‘ استقامت و استقلال اور عزم و ثبات سے عبارت ہے?
? قدر و قیمت عزم و ہمت میں ہے نہ کہ کثرت میں: نوح علیہ السلام کی طویل جدوجہد، پیہم عمل اور مسلسل دعوت توحید کے باوجود صرف 80 افراد ایمان لائے اور باقی کفر و شرک، عناد، ضد اور فخر و غرور ہی میں غرق رہے? اس مبارک جدوجہد اور دن رات کی محنت شاقہ کے باوجود اتنے کم افراد کاایمان لانا، داعیان توحید کے لیے، ہرگز پریشانی کا باعث نہیں ہے? اس سے نہ ان کے حوصلے پست ہوتے ہیں اور نہ ان کاعزم ماند پڑتا ہے? بلکہ ان کی ہمتیں جواں رہتی ہیں اور وہ ہمیشہ ایک نئے ولولے اور امنگ سے اپنا

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت نُوح علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.