قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت ابراہیم علیہ السلام

جہالت، حماقت، ضلالت اور بے وقوفی کی بنا پر انہوں نے کہا: ”ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ معاملہ کس نے کیا؟“ کچھ لوگوں نے کہا: ”ہم نے ایک جوان کو اُن کا ذکر کرتے ہوئے سنا ہے اس کو ابراہیم کہتے ہیں?“ (الا?نبیائ: 60/21)
یعنی وہ ان کے عیب بیان کرتا ہے، ان کی تحقیر اور تذلیل کرتا ہے? اسی نے پیچھے رہ کر انہیں توڑا ہے? حضرت ابن مسعود? فرماتے ہیں: ”ان کا ذکر کرتا تھا“ اس سے مراد ابراہیم کا یہ فرمان ہے:
”اور اللہ کی قسم! جب تم پیٹھ پھیر کر چلے جاؤگے تو میں تمہارے بتوں کے ساتھ ایک چال چلوں
گا?“ (الا?نبیائ: 57/21)
”وہ بولے کہ اُسے لوگوں کے سامنے لاؤ تاکہ وہ گواہ رہیں?“ (الا?نبیائ: 61/21)
یعنی اسے بڑے اجتماع میں لوگوں کے سامنے حاضر کرو تاکہ وہ سب لوگ اس کی باتیں سنیں اور اسے ملنے والی سزا دیکھیں? حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بتوں کو توڑنے سے اصل مقصود ہی یہ تھا کہ سب لوگ جمع ہوجائیں تاکہ تمام بت پرستوں کے سامنے ان کا عقیدہ غلط ہونے کی دلیل پیش کی جائے? حضرت موسی? علیہ السلام نے بھی اسی مقصد کے لیے فرعون سے کہا تھا:
”زینت اور جشن کے دن کا وعدہ ہے اور یہ کہ لوگ دن چڑھے ہی جمع ہوجائیں?“
(ط?ہ: 59/20)
? قوم کا ردعمل اور ابراہیم علیہ السلام کا مسکت جواب: جب سب لوگ جمع ہوئے اور ابراہیم علیہ السلام کو بھی مجمع عام میں لے آئے‘ تو انہوں نے بات شروع کی اور کہا:
”اے ابراہیم! ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ کام بھلا تم نے کیا ہے؟ (ابراہیم نے) کہا: (نہیں)
بلکہ یہ اُن کے اس بڑے (بت) نے کیا (ہوگا?) اگر یہ بولتے ہیں تو ان سے پوچھ لو?“
(الا?نبیائ: 63-62/21)
اس کا مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اُس نے مجھے ان کے توڑنے پر آمادہ کیا? اس کلام میں تعریض تھی? اصل میں ابراہیم علیہ السلام لوگوں کی توجہ اسی حقیقت کی طرف مبذول کروانا چاہتے تھے کہ ان کے معبود تو بولنے سے بھی قاصر ہیں‘ اس لیے انہیں تسلیم کرلینا چاہیے کہ یہ محض عام پتھروں جیسے پتھر ہی ہیں اور کچھ نہیں? انہوں نے اپنے دل میں غور کیا تو آپس میں کہنے لگے: ”بے شک تم ہی بے انصاف ہو?“ یعنی وہ اپنے آپ کو ملامت کرنے لگے اور انہوں نے کہا: ”تم نے خود ہی یہ غلطی کی کہ ان کے پاس کوئی چوکیدار یا محافظ نہ چھوڑا?“ ”تب انہوں نے سر جھکا لیے?“ (الا?نبیائ: 65)
قتادہ? نے فرمایا: یعنی وہ حیرت زدہ رہ گئے (کہ کیا جواب دیں؟) اور انہوں نے (شرم سے) سر جھکا لیے? تفسیر الطبری: 55/10 تفسیر سورة الا?نبیائ‘ آیت: 65 اور بولے: ”تم جانتے ہو یہ بولتے نہیں?“
یعنی ابراہیم! آپ کو معلوم ہے کہ یہ مجسمے باتیں نہیں کرتے? پھر آپ ہمیں کیوں کہتے ہیں کہ ان سے پوچھ لو? تب حضرت خلیل علیہ السلام نے فرمایا:

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت ابراہیم علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.