قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت ابراہیم علیہ السلام

ابراہیم علیہ السلام نے اس سے بحث کی? اس نے اپنے رب ہونے کا دعوی? کیا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: “میرا رب زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے?“ اس نے کہا: ”میں بھی زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں?“ (البقرة: 258/2)
قتادہ، سدی اور محمد بن اسحاق رحمة اللہ علیہم بیان کرتے ہیں کہ اس کے سامنے دو آدمی پیش کیے گئے جن کے لیے سزائے موت کا فیصلہ ہوچکا تھا? اس نے ایک کو قتل کرنے کا حکم دیا اور دوسرے کو معاف کردیا? اس طرح اس نے یہ فریب دیا کہ اس نے ایک کو موت دے دی ہے اور دوسرے کو زندگی بخش دی ہے? تفسیر الطبری: 36/3 وابن کثیر: 525/1 تفسیر سورة البقرة‘ آیت: 258
اس کا یہ عمل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دلیل کا جواب نہیں تھا اور نہ اس کا موضوع مناظرہ سے کوئی تعلق تھا بلکہ یہ ایک بے کار بات تھی جس سے ظاہر ہوگیا کہ اس کے پاس کوئی دلیل نہیں? حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو دلیل پیش فرمائی تھی اس کی فصاحت یہ ہے کہ جانداروں کا جینا مرنا ایک عام مشاہدے کی چیز ہے کیونکہ یہ واقعات خود بخود پیش نہیں آسکتے، لہ?ذا ضرور کوئی ایسی ذات موجود ہے جس کی مشیت کے بغیر ان اشیا کا وجود میں آنا محال ہے? لازمی ہے کہ نظر آنے والے واقعات کا کوئی فاعل ہو، جس نے انہیں پیدا کیا، انہیں اپنے اپنے نظام کا پابند کیا، جو ستاروں، ہواؤں اور بادلوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتا ہے اور بارش برساتا ہے اور ان جانداروں کو پیدا کرتا ہے جو ہمیں نظر آتے ہیں اور پھر انہیں موت سے ہمکنار کردیتا ہے? اسی لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: ”میرا پروردگار تو وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے?“ اس جاہل بادشاہ نے جو کہا ہے کہ ”میں بھی زندہ کرسکتا ہوں اور مار سکتا ہوں?“ اگر اس کا یہ مطلب ہے کہ یہ نظر آنے والے کام اس کے کنٹرول میں ہیں تو سراسر ضِد اور ہٹ دھرمی کا اظہار ہے اور اگر وہ مطلب ہے جو قتادہ، سدی اور محمد بن اسحاق رحمة اللہ علیہم نے بیان کیا ہے تو اس کا ابراہیم علیہ السلام کی پیش کردہ دلیل سے کوئی تعلق ہی نہیں? اس نے نہ تو مقدمہ کو غلط ثابت کیا ہے نہ دلیل کے مقابل دلیل پیش کی?
چونکہ بحث میں اس کی شکست کا یہ پہلو ایسا ہے جو حاضرین یا دوسرے لوگوں میں سے بہت سے افراد کی سمجھ میں آنے والا نہیں تھا? اس لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک اور دلیل پیش کردی، جس سے نہایت واضح طور پر خالق کا وجود اور نمرود کے دعوے کا بطلان ثابت ہوتا تھا? اس کی وجہ سے اُسے سب کے سامنے لاجواب اور خاموش ہونا پڑا‘ ارشاد باری تعالی? ہے:
”ابراہیم نے کہا کہ اللہ تو وہ ہے جو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے لہ?ذا تو اسے مغرب سے نکال
دے?“ (البقرة: 258/2)
یعنی یہ مسخر سورج روزانہ مشرق سے نکلتا ہے جیسے اِسے پیدا کرنے والے اور چلانے والے نے مقرر کر رکھا ہے? اگر تو ہی زندگی اور موت کا مالک ہے جیسے کہ تیرا دعوی? ہے کہ تو زندہ کرتا اور موت دیتا ہے، تو اس سورج کو مغرب سے لے آ? کیونکہ جس کے ہاتھ میں زندگی اور موت کا اختیار ہو، وہ جو چاہتا ہے کرسکتا ہے، اسے نہ منع کیا جاسکتا ہے، نہ مغلوب کیا جاسکتا ہے? بلکہ وہ ہر چیز پر غالب ہوتا ہے اور ہر چیز اس کے

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت ابراہیم علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.