قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت ابراہیم علیہ السلام

پانے والے ہیں? اور یہ ہماری دلیل تھی جو ہم نے ابراہیم کو اُن کی قوم کے مقابلے میں عطا کی تھی?
ہم جس کے چاہتے ہیں درجے بلند کردیتے ہیں? بیشک تمہارا پروردگار دانا اور خوب علم والا ہے?“
(الا?نعام: 83-75/6)
اس مقام پر اللہ تعالی? نے ابراہیم علیہ السلام اور ان کی قوم کے درمیان مناظرے کا ذکر کیا ہے? آپ نے یہ واضح فرمایا کہ روشن ستاروں کی صورت میں نظر آنے والے اجرام فلکی معبود ہونے کے لائق نہیں? اللہ کے ساتھ اُن کی عبادت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ وہ مخلوق ہیں جنہیں دیکھ بھال کی ضرورت ہے? وہ خالق کے بنائے ہوئے اور اس کے حکم کے تابع ہیں، کبھی طلوع ہوتے ہیں تو کبھی غروب ہوکر نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں جب کہ اللہ تعالی? سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں، وہ ازلی اور ابدی ہے، اس کے ساتھ اور کوئی معبود نہیں?
سب سے پہلے آپ نے یہ واضح کیا کہ ستارے یہ صلاحیت نہیں رکھتے? اس کے بعد آپ نے چاند کا ذکر فرمایا جو ستاروں سے زیادہ روشن اور زیادہ خوبصورت ہے? اور آخر میں سورج کا ذکر فرمایا جو نظر آنے والے اجرام فلکی میں سب سے زیادہ روشن اور خوبصورت ہے? اور واضح کیا کہ یہ بھی کسی کے حکم کا تابع اور مسخر ہے? جیسے کہ اللہ تعالی? کا ارشاد ہے:
”اور رات اور دن اور سورج اور چاند اُس کی نشانیوں میں سے ہیں? تم لوگ نہ تو سورج کو سجدہ کرو
اور نہ چاند کو‘ بلکہ اللہ ہی کو سجدہ کرو جس نے ان چیزوں کو پیدا کیا ہے اگر تم کو اسی کی عبادت منظور
ہو?“ (حم السجدة: 37/41)
اسی لیے اللہ تعالی? نے فرمایا:
”پھر جب سورج کو دیکھا کہ جگمگا رہا ہے تو کہنے لگے کہ میرا پروردگار یہ ہے? یہ سب سے بڑا ہے مگر
جب وہ بھی غروب ہوگیا تو کہنے لگے: لوگو! جن چیزوں کو تم (اللہ کا) شریک بناتے ہو میں اُن سے
بیزار ہوں? میں نے سب سے یکسو ہو کر اپنے آپ کو اُسی ذات کی طرف متوجہ کیا جس نے
آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں? اور اُن کی قوم اُن سے بحث
کرنے لگی تو انہوں نے کہا کہ تم مجھ سے اللہ کے بارے میں (کیا) بحث کرتے ہو، اُس نے تو مجھے
سیدھا راستہ دکھا دیا ہے اور جن چیزوں کو تم اُس کا شریک بناتے ہو میں اُن سے نہیں ڈرتا? ہاں جو
میرا پروردگار کچھ چاہے? “ (الا?نعام: 80-78/6)
مطلب یہ ہے کہ میں ان نام نہاد معبودوں سے نہیں ڈرتا، جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو? یہ کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے نہ سن سکتے ہیں اور نہ سمجھ رکھتے ہیں بلکہ وہ یا تو ستاروں وغیرہ کی طرح ربوبیت کے محتاج اور حکم کے پابند ہیں یا ہاتھوں سے گھڑ کے اور تراش کر بنائی ہوئی مورتیاں ہیں?

بت پرستوں سے مناظرہ اور دعوت غور و فکر کے لیے شاندار تدبیر

اہل بابل بتوں کی پوجا کرتے تھے? حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اُنہی سے بت پرستی کے بارے میں مناظرہ کیا تھا اور مجسموں کو توڑ پھوڑ کر اور ان کی تحقیر و تذلیل کرکے ان کا باطل ہونا واضح فرمایا تھا? جیسے

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت ابراہیم علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.