قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت مُوسىٰ علیہ السلام

پرہیزگاری اختیار نہ کریں گے؟ موسی? نے کہا: میرے پروردگار! مجھے تو خوف ہے کہ وہ مجھے جھٹلائیں
گے اور میرا سینہ تنگ ہو رہا ہے، میری زبان چل نہیں رہی، پس تو ہارون کی طرف بھی (وحی) بھیج‘
اور میرے ذمے ان کا ایک قصور بھی ہے، مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ مجھے مار نہ ڈالیں? باری تعالی? نے
فرمایا: ہرگز ایسا نہ ہوگا! تم دونوں ہماری نشانیاں لے کر جاؤ، ہم خود سننے والے ہیں‘ تمہارے ساتھ
ہیں? تم دونوں فرعون کے پاس جا کر کہو: ”ہم بلاشبہ رب العالمین کے بھیجے ہوئے ہیں کہ تو ہمارے
ساتھ بنی اسرائیل کو روانہ کر دے? فرعون نے کہا: کیا ہم نے تجھے تیرے بچپن میں اپنے ہاں نہیں
پالا تھا؟ اور تونے اپنی عمر کے بہت سے سال ہم میں نہیں گزارے؟ پھر تو اپنا وہ کام کر گیا جو کر گیا اور
تو ناشکروں میں سے ہے?“ (الشعرائ: 19-10/26)
ان آیات کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالی? نے موسی? اور ہارون علیہماالسلام کو حکم دیا کہ فرعون کے پاس جا کر اسے توحید کا پیغام دیں کہ وہ صرف اکیلے اللہ کی عبادت کرے جس کا کوئی شریک نہیں اور بنی اسرائیل کو اپنے قبضے اور تسلط سے آزاد کرے? وہ جہاں چاہیں جا کر اپنے رب کی عبادت کریں اور اس کی توحید پر کاربند رہتے ہوئے اس سے دعا و التجا میں مشغول ہوجائیں? فرعون پر فخر و تکبر کے جذبات غالب آگئے? اس نے حضرت موسی? علیہ السلام کو تحقیر کی نظر سے دیکھتے ہوئے کہا: ”کیا تو وہی نہیں جسے ہم نے اپنے گھر میں پالا اور طویل عرصہ تک تجھ سے حسن سلوک کرتے ہوئے انعامات کی بارش کیے رکھی؟“
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس فرعون کے پاس سے آپ فرار ہوئے تھے، اسی کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے? اس کے برعکس اہل کتاب کہتے ہیں کہ آپ جس فرعون کے دور میں مصر سے نکل کر مدین تشریف لے گئے تھے، وہ آپ کے مدین میں مقیم ہونے کے دوران میں مرگیا تھا? اور نبوت ملنے کے بعد جس کے پاس گئے وہ اور فرعون تھا? بائبل کی کتاب خروج، باب: 2، فقرہ: 23 میں اس فرعون کے مرنے کا ذکر ہے جس کے دور حکومت میں موسی? علیہ السلام پیدا ہوئے تھے اور باب: 3 میں موسی? علیہ السلام کو نبوت ملنے کا ذکر ہے?
”پھر تو اپنا وہ کام کر گیا جو کرگیا اور تو ناشکروں میں سے ہے?“ یعنی تونے قبطی آدمی کو قتل کیا اور ہمارے پاس سے بھاگ گیا اور ہمارے احسانات کا منکر ہوا? موسی? علیہ السلام نے جواب دیا: ”میں نے یہ کام اس وقت کیا تھا جب میں راہ بھولے ہوئے لوگوں میں سے تھا?“ (الشعرائ: 20/26) یعنی اس وقت مجھ پر وحی نازل نہیں ہوئی تھی? ”پھر تم سے خوف کھا کر میں تم میں سے بھاگ گیا? پھر مجھے میرے رب نے حکم (وعلم) عطا فرمایا اور مجھے اپنے پیغمبروں میں سے کردیا?“ (الشعرائ: 21/26)
پھر فرعون نے آپ پر پرورش اور حسن سلوک کا جو احسان جتلایا تھا، اس کا جواب دیتے ہوئے آپ نے فرمایا: ”مجھ پر تیرا کیا یہی وہ احسان ہے جسے تو جتا رہا ہے کہ تونے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے؟“ (الشعرائ: 22/26) یعنی تو نے مجھ ایک فرد پر جو احسان کیا ہے، کیا تو اپنے اس ظلم کے مقابلے میں اس کا ذکر کر سکتا ہے کہ تونے ایک پوری قوم کو غلام بنا کر اپنی خدمت میں لگا رکھا ہے؟

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت مُوسىٰ علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.